تیرے آنے کا تھا گماں کب سے
درد سینے میں تھا نہاں کب سے
یہ تفاخر یہ تیری بے نیازی
آپ بن بیٹھے ہو یزداں کب سے
کس پہ اب بجلیاں گراتے ہو
جل چکا میرا آشیاں کب سے
جاتے جاتے تھما گیا مجھ کو
فاصلے تھے جو درمیاں کب سے
دل ہے کہ ہوش ہی نہیں کرتا
گونجتی ہے کوئی اذاں کب سے
تیرے قدموں کی جانب کھینچتا ہے
دل ہے سینے میں پریشاں کب سے
اب کسے ڈھونڈتے ہو لفظوں میں
مٹ چکی میری داستاں کب سے