تیرے بغیر کچھ نہیں
Poet: Rukhsana Kausar By: Rukhsana Kausar, Jalal Pur Jattan, Gujratتیرے بغیر کچھ نہیں
دل تیرے اختیا ر میں ایسے
کہ میر ا اپنا آُ پ کچھ نہیں
میرے دستِ دعا میں تیرا چہرا
میری شبِ خلوت میں گل رُسوں کا سجدہ نشین تو ہی ٹھہرا
مجھ میں سمٹے ہو ایسے کوبکو
تیرے بغیر جہاں میں بچا کچھ نہیں
عجب عرضِ حال ہے آنکھوں کا
پلکوں کی زمیں میں تو ہی بہتا ہے
دن رات کے بکھرنے میں
یہ دشتِ ویراں، تیری تمنا اور یہ پاگل پن
اِس قدر تو ہے اُ ترا میری ہتھیلی میں
کہ دست جب بھی اُٹھیں
میرے دستِ دعا میں کچھ نہیں
تیرے نہ ملنے کا دُکھ ، وصل کی ویرانی ، دہکتے ا شکو ں کی کہانی
تسلسل تیری یادوں کا ، خوابیدہ سی آنکھیں
یہ سب حال ہے تیرے بغیر
کیسے گزریں یہ ماہ وسال ،،،،تیرے بغیر میرے مسیحا
جیسے میں نے جیا کچھ نہیں
میں شاعر جو ہو ں تو ہے شاعری میری
میں سرمدی احساس میں ڈوبی ، تو کہ شبِِِ آسودگی میری
نگاہیں نیچے رکھے ، مجسم گوش رہتی ہوں
محبت کی ردا اُڑوھے،تجھے ہی مانگتی رب سے،
تو دیوتا ،میرے تنہا جزیرہ رازداروں کا
تو ہی ٹھہر چکا مجھ میں فقط
کہ میری ذات میں رہا کچھ نہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل







