تیرے جلوے کا ہے جادو کہ ہے خود تُو جادو
Poet: NADEEM MURAD By: ندیم مراد, umtata RSAتیرے جلوے کا ہے جادو کہ ہے خود تُو جادو
روح بیتاب ہوئی کیا ہے یہ جادو جادو
گفتگو جادو، ادا جادو، نظر جادو گر
کاش مجھ پر بھی کرے اپنا کبھی تو جادو
توجو آئے تو بنا برکھا، بنے قوسِ قزع
اور اٹھے سوکھی ہوئی مٹی سے خوشبو جادو
رنج و غم درد و الم یاد نہیں رہتے پھر
یہ حقیقت ہے کہ رکھے ترا پہلو جادو
ناچنے سے ترے افلاک میں گونجی جھنکار
جانتے ہیں تری پائل کے بھی گھنگرو جادو
بند زلفوں کے ترے دل پہ مرے ڈالیں کمند
کون کہتا ہے نہیں ہیں ترے گیسو جادو
تو جو آیا چلی باد صبا نکھرے رنگ
کر گیا کوئی یہ جادو کہ ہے خود تو جادو
میں نے تاریکیء شب میں انہیں دیکھا اُڑتے
کہکشاؤں کی طرح کرتے تھے جگنو جادو
دو ہی بوندوں سے بجھی آگ بھڑکتے دل کی
کیا خبر تھی کہ کیا کرتے ہیں آنسو جادو
کتنے طوفانِ بلا خیز ہیں جھیلے ہوئے ہم
سن لے ہم پر نہیں چلنا اے قلمرو جادو
یہ پپیہے کی صدا بھی کرے دل کو گھائیل
بن سے آتی ہوئی آواز یہ کوکو جادو
مجھ کو تاریک جہاں میں بھی نظر آئیں رنگ
خوش گمانی کا کرے مجھ پہ وہ خوشرو جادو
خون کے آنسو کئی سال یہ دل رویا ہے
شاعری میری نہیں ہے کوئی خودرو جادو
اس کو دیکھوں تو حسیں لگتی ہے ہر چیز ندیم
ایسا لگتا ہے کوئی کر گیا ہر سو جادو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






