تیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں
Poet: محشر آفریدی By: راحیل, Rawalpindiتیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں
تیرا انداز بدل دوں ترا لہجہ ہو جاؤں
تو مرے لمس کی تاثیر سے واقف ہی نہیں
تجھ کو چھو لوں تو ترے جسم کا حصہ ہو جاؤں
تیرے ہونٹوں کے لیے ہونٹ میرے آب حیات
اور کوئی جو چھوئے زہر کا پیالہ ہو جاؤں
کر دیا تیرے تغافل نے ادھورا مجھ کو
ایک ہچکی اگر آ جائے تو پورا ہو جاؤں
دل یہ کرتا ہے کہ اس عمر کی پگڈنڈی پر
الٹے پیروں سے چلوں پھر وہی لڑکا ہو جاؤں
اپنی تکلیم کا کچھ ذائقہ تبدیل کروں
تجھ سے بچھڑوں میں ذرا دیر ادھورا ہو جاؤں
دل کہ صحبت مجھے ہر وقت جواں رکھتی ہے
عقل کے ساتھ چلا جاؤں تو بڈھا ہو جاؤں
اس قدر چیختی رہتی ہے خاموشی مجھ میں
شور کانوں میں اتر جائے تو بہرا ہو جاؤں
تیرے چڑھتے ہوئے دریا کو پشیماں کر دوں
تجھ کو پانے کے لئے ریت کا صحرا ہو جاؤں
آپ ہستی کو ترے شوق پہ قربان کروں
تو اگر توڑ کے خوش ہو تو کھلونا ہو جاؤں
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






