تیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں
تیرا انداز بدل دوں ترا لہجہ ہو جاؤں
تو مرے لمس کی تاثیر سے واقف ہی نہیں
تجھ کو چھو لوں تو ترے جسم کا حصہ ہو جاؤں
تیرے ہونٹوں کے لیے ہونٹ میرے آب حیات
اور کوئی جو چھوئے زہر کا پیالہ ہو جاؤں
کر دیا تیرے تغافل نے ادھورا مجھ کو
ایک ہچکی اگر آ جائے تو پورا ہو جاؤں
دل یہ کرتا ہے کہ اس عمر کی پگڈنڈی پر
الٹے پیروں سے چلوں پھر وہی لڑکا ہو جاؤں
اپنی تکلیم کا کچھ ذائقہ تبدیل کروں
تجھ سے بچھڑوں میں ذرا دیر ادھورا ہو جاؤں
دل کہ صحبت مجھے ہر وقت جواں رکھتی ہے
عقل کے ساتھ چلا جاؤں تو بڈھا ہو جاؤں
اس قدر چیختی رہتی ہے خاموشی مجھ میں
شور کانوں میں اتر جائے تو بہرا ہو جاؤں
تیرے چڑھتے ہوئے دریا کو پشیماں کر دوں
تجھ کو پانے کے لئے ریت کا صحرا ہو جاؤں
آپ ہستی کو ترے شوق پہ قربان کروں
تو اگر توڑ کے خوش ہو تو کھلونا ہو جاؤں