ترک تعلق کے بعد
تیرے خط
پیار کی آخری پونجی
یادوں کی الماری سے نکال کر
گھر سے نکلا میں
دریا میں بہانے کا ارادہ کر کے
تیرے حُکم کی تعمیل کا وعدہ کر کے
تو نے آخری خط میں لکھا تھا
میرے خط جلا دینا، بہا دینا
یا کہیں مٹی میں دبا دینا
مگر میری جان
مُجھ سے تیرے خط نہ جلائے گئے
نہ بہائے گئے نہ مٹی میں دبائے گئے
تو ہے بتا
کہ تیرے ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں سے
لکھے گئے لفظ لفظ سے جب تیری خوشبو آئے
میں اُن خطوں کو آگ میں جلاتا کیسے
تو ہی بتا خاک میں اُن کو ملاتا کیسے
بہتے دریا میں اُن کو بہاتا کیسے
آگ پانی میں میری جان لگاتا کیسے
رفاقت حسین بابر بورے والہ