سلسلے محبتوں کے لکھے تھے نصاب میں
ہم نے سارے صحفے پڑھے یوں اضطراب میں
میں لوٹ جاتا گھر کی طرف لیکن سکوں نہ تھا
چھپی ہوئی تھی بے بسی دل خانہ خراب میں
وہ رخ پہ چاند آ کے جھکا اور یوں پلٹ گیا
اک آگ سی لگی تھی اس کے شباب میں
جلتی رہی تھی شام کی لالی ھواؤں میں
سلگتی ہوئی خاموشی تھی آج آفتاب میں
تیری یادوں سے ھم کبھی نہ دامن چھڑا سکے
تیرے دئیے سب پھول رکھ چھوڑے کتاب میں