ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسر الزام ہی آئے
حیران ہیں ‘ لب بستہ ہیں‘ دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبج‘ چلو شام ہی آئے
کیا رہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے دروبام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ‘ ادا دشت چنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے