تیرے در کی اگر فقیر ہوں میں
اب محبت میں بے نظیر ہوں میں
تن پہ کپڑے نہیں ہیں صاف مگر
پیار و الفت کی پر سفیر ہوں میں
اُس کی نظروں سے گر کے پستی میں
اپنی ہستی میں کب حقیر ہوں میں
جس نے سر عشق کا بلند کیا
اپنے رانجھے کی اب بھی ہیر ہوں میں
وہ بھی پڑھتا رہا ہے غالب کو
جس کی نظروں میں آج میر ہوں میں
اپنی باتوں سے کر دے جو زخمی
وشمہ نظروں کا ایسا تیر ہوں میں