معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہوگا
تیرے دریا پہ مِیری پیاس کا پہرہ ہوگا
اُس کی آنکھیں تیرے چہرے پہ بہت بولتی ہیں
اُس نے پلکوں سے تیرا جسم تراشا ہوگا
کتنے جُگنُو اِسی خواہش میں میِرے ساتھ چلے
کوئی رستہ تیرے گھر کو بھی تو جاتا ہوگا
میں بھی اپنے کو بُھلائے ہوئے پھرتا ہوں بہت
آئینہ اُس نے بھی کچھ روز نہ دیکھا ہوگا
رات جل تھل میِری آنکھوں میں اُتر آیا تھا
صورت ابر کوئی ٹوٹ کے برسا ہوگا
یا مسیحائی اُسے بھول گئی ہے محسن
یا پھر ایسا ہے میِرا زخم ہی گہرا ہوگا