تیرے دیدار کی خواہش مجھے یوں کھینچ لائی ہے
کہ نظر کرنے کو سنگ اپنے چند اشعار لائی ہے
مشک ادم سے در و بام مہک کے جاتے ہیں
لفظ انکار سے سفاک سہم جاتے ہیں
گل رعنا ہو کے تعبیر ہو یا شہر ناز
جھک کے کہیں افلاک خوب ہیں تیرے انداز
میں بس اتنا کہوں گی اب محبت آگ سی ہے
جسے تم عشق ہو سمجھے محض یہ دل لگی ہے
الف اللہ میں رانی سے جو شاموں نہ ملے
کہیں سسکیاں سنے اور کہیں دیپ جلے
اور تیرے نام سے ہی جلتی رہے شمع دل
لوگ صحراؤں میں کرتے پھریں رقص بسمل
اور کردار وہ جو ٹیپو کا نبھایا تو نے
کیسے بنتا ہے اداکار یہ بتایا تو نے
دل ویران میں یہ کیسی تو نے حدت بھر دی
اوکے شد بھائی پھر وں رانجھا رانجھا کر دی
بدگمانی سے جو تیرے دل کا برا حال بنا
وصل میں بنتی رہی اور وہ ہجر جال بنا
تیری خواہش میں ہم پھر بدنام بنے عام ہوئے
آگ بدلے کی لگی ہے اور نمک حرام ہوئے