وہ امیر ھوئے میرے رات دن
تیری چاہ میں جو گرز گئے
وہ گلاب بن کے کھلے رھے
وھی خوشبو بن کے بکھر گئے
تیری گفتگو میں ھیں تلخیاں
تیری چاھتوں پہ تو شک نھیں
کبھی دلبری سے جو بات کی
تو وفا کے رنگ نکھر گئے
نا ستماگری کا ھو شائبہ
نا لگے کرم کا وہ معاملہ
کبھی ھنس دیے بنا بات کے
کبھی بے سبب بکھر گئے
یہ دل و جگر میں کھلے ھوئے
تیری چاھتوں کے جو پھول ھیں
انھیں موسموں سے غرض نھیں
یہ تیری نظر سے سنوار گئے
تیرا ھر خیال جھٹک کے ھم
کبھی مطمئن بھی ھوئے مگر
تیری یاد آئی دفاتاں
ھم ادھر گئے ادھر گئے
کبھی اب نا تجھ سے ملینگے ھم
کئی بار سوچا کیے
وھیں دل تڑپ کے مچل اٹھا
تیری چاہ سے جو مکر گئے
کبھی حرف حرف وھی کیا
جو تیری زبان سے ادا ھوا
یہ اجب جنون کی کیفیت
تیرے لفظ مجھ میں اتر گئے