اک آس جو سینے میں چھپا رکھی تھی
الہی تو ڑ نی تھی تو کیوں بنا رکھی تھی
آ نسوؤ ں کی اک لہر بہا کر لے گئ اسے
میں نے ہو نٹوں کے ساحل پہ جو دعا رکھی تھی
کو ئ حرف لکھا نہ تھا کہ وہ ٹو ٹ گئ
تیرے نام کیلئے جو تختی بنا ر کھی تھی
ا ندھیری رات میں بچھڑ گیا وہ اجا لے کیطرح
اسکی فطرت میں بھی شا ید جفا رکھی تھی
میرے تصور سے اترتی نہیں وہ معصوم سی صورت
دل میں اتنی چا ہت اسکے لیے جگا رکھی تھی
خاموش لبوں سے آ یا وہ اور خاموش ہی چل دیا
شاید اس نے خاموش رہنے کی قسم کھا رکھی تھی
موت کا اک جھو نکا بجھا گیا اس کو امتیا ز
شمع زندگی جو تیز ہواؤ ں میں بھی جلا رکھی تھی