تیرے پیاسوں کو سزا دی گئی ہے
تشنگی اور بڑھا دی گئی ہے
اس کے آنے کی خبر آتے ہی
شہر کو آگ لگا دی گئی ہے
قید ہونے کی دعا مانگی تھی
میری زنجیر ہٹا دی گئی ہے
تم مجھے دیکھنے سے قاصر تھے
روشنی اور بڑھا دی گئی ہے
ایک پنچھی کو کسی پنجرے میں
اڑتے رہنے کی دعا دی گئی ہے
خودکشی کے تو نشاں باقی نہیں
ریت ساحل سے ہٹا دی گئی ہے
میں تو سجدے میں پڑا تھا لیکن
مجھ پہ تلوار گرا دی گئی ہے