تیرے یادوں کے پھول بھی سنبھال رکھیں گے
گذرو تو پاؤں کی دھول بھی سنبھال رکھیں گے
جو گنوادیئے لمحے وہ خفگی کی خطا تھی
ابکہ آویزاں ہر بھول بھی سنبھال رکھیں گے
وہ آکے غم تشویش مکر نہ بیٹھے کہیں
ورنہ زندگی کے اصول بھی سنبھال رکھیں گے
میں سارے جہان کی اجابت نہیں کر سکتا
تجھے گر ہوگیا قبول تو سنبھال رکھیں گے
ہم خیالی تو قدرتی امر ہے پھر بھی
عقل، عاقل، اور معقول سنبھال رکھیں گے
جو دے گیا سنتوشؔ اس کی نرُخ نہیں
مگر اپنا تو ہر موُل سنبھال رکھیں گے