جاتے جاتے وہ رخ سے نقاب اٹھا کے چل دیا
خواہ مخواہ کیا بےقرار اور اکسا کے چل دیا
تم بجلی اور آگ کی بات کرتے ہو ہائے ہائے
وہ تو مجھے طور کا منظر دیکھا کے چل دیا
اس کی دید تھی آرزو شام سحر
آیا ظلم نشیمن جلا کے چل دیا
غم زندگی کی کہانی جب سنائی اس کو
وہ روکا چند لمحے اور سر ہلا کے چل دیا
بےرخی اس کی دیکھے میں کچھ بتا سکتا نہیں
راہوں میں پھر ملا وہ نظرے چرا کے چل دیا
کتنا بےرحم ہے وہ اس نے ظلم کی حد پار کر ڈالی
دل رکھا تھا روکنے کو کچلا اسے اور مسکرا کے چل دیا
تجھے کیا ہوا ہے ارشد تجھے کیا پراہ ہے کس کی
بجھا ہوا تھا وہ چراغ جو جلا کے چل دیا