زندگی ہے کہ جیے جا رہے ہیں
بوجھ اُٹھائے کندھوں پہ چلے جا رہے ہیں
نہ اپنا و بیگانہ، نہ خوشی و غم کی آرزو
فقط فسانہ ہے یہ اک جو لکھے جا رہے ہیں
مے خواں ہے یا کافر ہے جو چھوڑتا نہیں اُسے
جام اُلفت کی لت پڑی ہے جو پیے جا رہے ہیں
کبھی جو پُوچھے حال دل تو اُسے کہنا “فائز“
زندگی ہے کہ بس فقیرانہ جیے جا رہے ہیں