یہ نہیں سوچنا کہ تم نے یہ حالت کی ہے
جان من ہم نے کبھی تم سے شکایت کی ہے؟
نارسائی سے بھلا جذبے کہاں مرتے ہیں
خاک حاصل کیلئے ہم نے محبت کی ہے
پھول کا رنگ فضاؤں میں بکھرنا چاہے
ہو نہ ہو آپکے ہونٹوں نے شرارت کی ہے
آج ہے جس پہ گئے وقت کی پرچھائیاں سی
مدتوں ہم نے اسی دل پہ حکومت کی ہے
کیسی حیرانی کہ اطراف میں پھیلے خوشبو
بات یہ ساری دل و جان صداقت کی ہے
خاک پہ رکھی جو احساس ندامت سے جبیں
لوگ سمجھے کہ بڑی آج عبادت کی ہے
دامن دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ نے ہم سے الجھنے کی حماقت کی ہے
حسن کے راز چھلکنے کی گھڑی آ پہنچی
عشق نے آج پلٹنے کی جسارت کی ہے