معصوم محبت کا اتنا سا فسانہ ہے
کاغذ کی حویلی ہے بارش کا زمانہ ہے
کیا شرط محبت ہے کیا شرط زمانہ ہے
آواز بھی زخمی ہے اور گیت بھی گانا ہے
اس پار اترنے کی امید بھی کم ہے
کشتی بھی پرانی ہے طوفان کو بھی آنا ہے
سمجھے یا نہ سمجھے وہ انداز محبت کو
اک شخص کو آنکھوں سے اک شعر سنانا ہے
بھولی سی ادا کوئی پھر عشق کی ضد پر ہے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے