نظارہ اور نہ بھایا
سو اشکبار ہے جاناں
آشوبِ چشم کی دوا
تیرا دیدار ہے جاناں
وہ ہو گا اور جو تڑپا
مُحبت چاہتا ہو گا
مُحبت کرنیوالوں کو
سَدا قرار ہے جاناں
مُسافر کو ہمیشہ کب
یہ بستر راس آتا ہے
ہو جسے آرزو تیری
وہی بیدار ہے جاناں
سُنا جو شہرِ جاناں کا
نظارہ جان افزا ہے
کہا بے ساختہ دل نے
سَدا بہار ہے جاناں
ہر اِک چہرا! تیرا چہرا
مُجھے محسوس ہوتا ہے
یہ ہے دیوانگی شاید
یہی خُمار ہے جاناں
نہیں شکوہ مُحبت کا
نہ ہے دھڑکا عداوت کا
مُجھے تو عرض کرنی ہے
کہ انتظار ہے جاناں
کبھی کھٹکا سا ہوتا ہے
کہ ہو گا حشرِ گوہر کیا؟
مگر تو مُسکرا اُٹھے
تو بیڑہ پار ہے جاناں