میری صاحبہ تیرا کیا گیا
میرے رت جَگے تیرے سامنے
تیری اک نظر کا اثر ہوا
میرے ہوش تیرے ہولیے
میں کچھ بھی نہ آگے کہہ سکا
تیرے عکس میں- میں ہولیا
جو سیراب تھا- کبھی میرے لیے
وہ نظر میں میری ایسے بسا
میں تھا مگر میرے لیے
میں نا میں رہا- میں تو- تو بنا
اور جو سایہ تھا کبھی بنا
اسے آئینہ اپنا بنا لیا
ابھی کچھ لمحوں کی تو بات تھی
میں پلک بھی نہ جھپک سکا
نا- وجود میرا- میرا رہا
تیری خودی میں محو ہوا
میری چاہتوں کا صلہ نہیں
رائیگاں میری دعا نہیں
جو اٹھی تھی کبھی میری نظر
اس بے خودی کا ہوا- اثر
تو مل گیا- تو مل گئی
میری کھوئی- ہوئی جانِ غزل
میری کھوئی- ہوئی جانِ غزل