جانے وہ عشق کیسا تھا گاؤں میں رہ گیا
چکر سا ایک میرے بھی پاؤں میں رہ گیا
بوڑھا ہوا درخت تو پنچھی بھی اڑ گئے
اک یاد کا نشان ہی چھاؤں میں رہ گیا
میں روشنی تھی اُس کی زمیں پر بکھر گئی
بچھڑا ہوا وہ چاند خلاؤں میں رہ گیا
اس زندگی کے بخت میں جس سے بہار تھی
خوشبو کے بعد پھول خزاؤں میں رہ گیا
جب تِیرگی کے شور میں سناٹا مر گیا
پھر زندگی کا درد صداؤں میں رہ گیا
وشمہ زمینِ عشق پہ سجدہ کیا تو پھر
اک ذکر تیرا میری دعاؤں میں رہ گیا