جانے کہاں کہاں سے بلایا گیا ہوں میں
تب آئینے کے سامنے پایا گیا ہوں میں
دو چار پل حیات کے دوچار تھے مجھے
اک عمر بے دلی سے نبھایا گیا ہوں میں
دیوار و در سے پھوٹتی رہتی ہے تیرگی
یعنی دیے کے ساتھ بجھایا گیا ہوں میں؟
تم کو کہیں دکھوں تو بلانا ضرور تم
جانے کہاں ہوں! کس کو تھمایا گیا ہوں میں
پہلے تو خوب خواب دکھائے گئے مجھے
تعبیر پاس تھی تو جگایا گیا ہوں میں
چھوٹی سی ایک بھول تھی اتنی سزا نہ دے
آیا نہیں زمین پہ! لایا گیا ہوں میں
تجھ پر نظر پڑی تو کھلا زندگی کا راز
راشد ترے لیے تو بنایا گیا ہوں میں