جاگی آنکھوں میں خواب رہنے دے
اپنے رُخ پہ نقاب رہنے دے
تیری آنکھوں میں پڑھ لیا جاناں!
میرے خط کا جواب رہنے دے
بیٹھ جا آج رُو برو میرے
یہ سوال و جواب رہنے دے
سارے کانٹے نکال گلشن سے
اور سارے گلاب رہنے دے
نشہ ٹوٹا تو ساقی تو چھوٹا
پاس میرے شراب رہنے دے
تیرے ہونٹوں سے جل گیا ہے تن
میری جاں یہ عذاب رہنے دے
مجھ سے ملکر اداس تو ہو گا
مجھ سا خانہ خراب، رہنے دے
ہے غمِِ روزگار یہ نعمان
عاشقی کی کتاب رہنے دے