جب بھی وفا کی راہ میں ماتھے کے بل گئے
پتھر رما وہ لوگ بھی خوشبو میں ڈھل گئے
وہ بھی خفا خفا سے تھے میں بھی جدا جدا
یوں زندگی کے ہاتھ سے دونوں نکل گئے
بیٹھےبٹھائے ایک دن اشکوں کے روپ
کچھ یوں ہوا کہ آنکھ سے سپنے پھسل گئے
کب تک اٹھا کے سر پہ پھروں زندگی کا بوجھ
جس کی لگائی آگ سے ارمان جل گئے
وشمہ تمہارے پیار کی سانسوں کی آنچ سے
ہونٹو ں پہ جتنے جام تھے سب پگھل گئے