جب تری یاد کے آنگن میں اتر جاتا ہوں
مہک جاتا ہوں میں خوشبو سے نکھر جاتا ہوں
لوگ کیسے غمِ ہجراں میں اجڑ جاتے ہیں
میں ترے ہجر میں جلتا ہوں سنور جاتا ہوں
جب تری یاد کی سینے پہ شفق پڑتی ہے
تجھ میں کھو جاتا ہوں ایسا کہ میں مر جاتا ہوں
جن پہ اک ساتھ گزرتے تھے کبھی ہم دونوں
اب میں چپ چاپ انہی رستوں سے گزر جاتا ہوں
پھرتا رہتا ہوں میں راتوں کو بھی آوارہ جو ہوں
میں پرندہ تو نہیں لوٹ جو گھر جاتا ہوں
اس طرح درد دیۓ مجھ کو مرے اپنوں نے
اب کوئ اپنا پکارے تو میں ڈر جاتا ہوں
ایسا بدلا ہوں ترے شہر میں آ کر باقرؔ
اب میں اپنی کہی باتوں سے مکر جاتا ہوں