جب تک زندگی میں کوئی ستم نہ آئے گا
بنے گا ہر لمحہ ماضی اور عدم نہ آئے گا
بے مقصد بھی منزلوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا
مڑتی جائیں گی راہیں قدم جہاں چاہے گا
میرے مقدر نے اختیار کیا گردش کا راستہ
مگر منزل کے ہر موڑ پہ چشم نہ آئے گا
آواز بھی چلتے ہیں کلا کی مرضی سے
بے ترغیب تاروں سے ردم نہ آئے گا
سہارا بھی دو تو گرتی خودی کو اپنی
حالاتوں سے مکر کر کبھی ہمدم نہ آئے گا
اب ہے زندگی جنت بنا سکتے ہو ورنہ
دوسرا ایسا بھی کوئی جنم کہاں آئے گا