جب تک نہیں جاتا وہ میری حدود قلب سے
تب تک میں اس کی محبت کا قرض دار رہوں گا
کر جاتا ہے شکوہ وہ مجھ پر انجانے میں
محفل میں، میں جب بھی کسی اور سے ملوں گا
وہ تو بسا ہے میرے تخیل کے گردوں نواں میں
کس طرح میں اسے اپنی یادوں سے نکال سکوں گا
تنہائی تو سایہ ہے میرا، یہی کہنا تھا کہ بس
وہ روٹھ جائیں گے، میں کیسے منا پاؤں گا
وہ شخص میری زندگی میں درد داغ لگا گیا
روز حشر میں اپنے غموں کا اسے حقدار کہوں گا
بھلا کر بھی نہ بھلا سکا میں اس کو خدارا
بعد مرنے کے میں اپنے شعروں میں یہی کہتا بھروں گا
گزار بیٹھا میں عمر دکھوں کے جھرمٹ میں
لحد میں جانے کے بعد بھی نہ اُسے بھول سکوں گا