جب تک ہونٹوں پہ اقرار کو بھٹکنا پڑا
مجھے خاموش! زمانے کا تماشہ دیکھنا پڑا
میری حالت پر کس کو احساس آیا
آنکھوں سے اس غم آبشار کو بہنا پڑا
تھا پتہ کہ ترش کانٹے تکلیف دیتے ہیں
مگر میری راہوں کو اسی گلشن سے گذرنا پڑا
یہ نازک گھڑیاں بھی بھانڈ جیسے گذری
اُس تخریبی عالم میں مجھے ہی رہنا پڑا
نبض کو چھوکر احساس نہیں سمجھے جاتے
محبت کا دکھ میں دل کو ہی دھڑکنا پڑا
حقیر نگاہوں نے موت بھی بخشا تھا مگر
نہ جانے کس بلوغ لئے یہاں ٹھہرنا پڑا