جب سر بلند اپنی قسمت کا تارا ہو گا
چاہت کریں گے ایسی ہر دل ہمارا ہو گا
بیٹھے بھی ہیں وہ دیکھو پہلو میں آن میرے
خاموش رہ کے اس دم کیسے گزارا ہو گا
ہونے لگی معطر بادِ صباء یقیناََ
بالوں کی الجھنوں کو اس نے سنوارا ہو گا
چھینکیں جو آ رہی ہیں اور وقت رات کا ہے
پھر سنگدل نے مجھ کو دل میں پکارا ہو گا
بادل کا رنگ بدلا اور بن گئیں گھٹائیں
آنکھوں کا سنگدل نے کاجل اتارا ہو گا
ہاں اس کی ہر صدا میں جو درد ہے بلآ کا
حالات کا نشانہ دردوں کا مارا ہو گا
اس ڈر سے جعفری میں الفاظ کم ہوں لکھتا
الفاظ کے ذریعے درد آشکارا ہو گا