جب سے اِس دِل میں تری یاد بَسائی ہے صنم
اپنی ہستی تو اِس ہستی سے مِٹائی ہے صنم
عید اگر نام ہے دیدارِ رُخِ مَحبوب کا تو
میں نے کب آج تَلک عید منائی ہے صنم
میں تو مشہور ہی مجنوں ہوں مگر تو لیلہ ہے
یہ خبر کس نے زمانے میں اُڑائی ہے صنم
اہلِ دُنیا نے لگایا یہ تماشہ مگر افسوس
آج اس بزم میں تو بھی تماشائی ہے صنم
میری پرواز کے اَفلاک فقط تیرے قدم
تیرے قدموں ہی تلک میری رسائی ہے صنم
میں نے تو آنکھ سے دیکھا ہی نہیں چہرہ شاہؔ میر
بس فقط آنکھ تری رَہ میں بچھائی ہے صنم