جب سے اہل چمن مہربان ہو گئے ہیں
ہم بھی تھوڑے سے اہل زباں ہو گئے ہیں
وصال ہوتے ہی آنکھوں میں غنچے کھلے
گویا صحراسے اب گلستاں ہو گئے ہیں
دیکھ کر ان کو لحد بھی مہکنے لگی
گویا فردوس کے کچھ نشاں عیاں ہو گئے ہیں
بعد صدیوں کے اک جو تھا لمحہ ملا
ایسے بدلے کہ ہم پھر جواں ہو گئے ہیں
اب جوانی رہی نہ کوئی مستی رہی
ہم محبت میں ایسے زیاں ہو گئے ہیں
اب جگر میں ابلتا ہے رنگ حنا
جیسے ہی آپ دل سے جاں ہو گئے ہیں
سچ تو ہے کہ آپ دل کو اچھے لگے
ہم دیکھ کر اس لیے پریشاں ہو گئے ہیں