جب صبح روشن ہوتی ہے
ماہتاب کہیں کھو جاتا ہے
شب کا آخری تارا بھی
چپکے سے سوجاتا ہے
رات کی سرمئی چادر سے
آفتاب کی پہلی کرن جھانکتی ہے
جیسے ہو کوئی کمسن دلہن
باد صبا کے نرم جھونکے
چوم کے منہ بند کلیوں کا
کھلتا پھول بنا دیتے ہیں
رات کے آنسو موتی بن کر
نظروں کو بھا جاتے ہیں
ابھی چمکتے ہیں ابھی کھو جاتے ہیں
کتنے پنچھی گاتے ہیں
سب ہی دل کو بھاتے ہیں
ایسے میں تیری یادوں کے
خشک پھول بھی مہک جاتے ہیں