جب مری جیب میں پہلی سی وہ دولت نہ رہی
پھر کسی شخص کو بھی میری ضرورت نہ رہی
جس کا اک پل نہ گزرتا تھا کبھی میرے بن
جانے کیوں آج اسی کو مری حاجت نہ رہی
پھر جو یاد آیا تو بس ایک خدا یاد آیا
جب گُنا کرنے کی انسان میں سکت نہ رہی
کاٹ ڈالیں تھے امیروں نے فقیروں کے ہاتھ
پھر کہیں کاسہ اٹھانے کی جسارت نہ رہی
رات بھر پوجتا ہے اس کو ابھی بھی مرا دل
جس کا پیغام ملا تھا تری چاہت نہ رہی
کیسا بدلا ہے وہ غیروں کی بغل میں رہ کر
اس کو چہرہ ہی دکھانے کی بھی فرصت نہ رہی
مجھے افسوس ہے باقر میں بھلکڑ نکلا
آج تک یاد مجھے یار کی صورت نہ رہی