جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
Poet: Mohsin Naqvi By: Wajid Imran, Pirmahalمیں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
اُس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھتا
اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خد اُس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زبان خوشبو اُس کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے
سارے چہرے میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجبنی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورت سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُسی کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
مین نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑھتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اُس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے حال پنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دِنوں وہ کیسا ہے ؟
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






