جب کبھی درد کے ماروں کو سزا ملتی ہے
زیست کیوں تیرے پیاروں کو سزا ملتی ہے
ان کا شیوا ہے جو گلشن سے وفائیں کرنا
جاتے جاتے بھی بہاروں کو سزا ملتی ہے
شمع جلتی ہے کسی اور کے غم میں لیکن
اس کے پہلو میں ہزاروں کو سزا ملتی ہے
کچھ تو ان خاک نشینوں پہ کرو کرم میاں
کیوں یہ ان خاک کے تاروں کو سزا ملتی ہے
جو بھی تہذیب و تمدن کی یہاں بات کرے
اس کی آنکھوں کے اشاروں کو سزا ملتی ہے
جب بھی اترا ہے یہ اشکوں کا سمندر وشمہ
چشم دریا کے کناروں کو سزا ملتی ہے