جب کہ پایا پیام تھا تیرا
چوما آنکھوں نے نام تھا تیرا
ہر زباں پر تھا تیرے حسن کا ذکر
اس قدر چرچا عام تھا تیرا
پیار اتنا کہ یادیں تڑپائیں
یہ بھی کیا انتقام تھا تیرا؟
سینے کو چیر کر جو لے گیا دل
ہائے! کیا ابتسام تھا تیرا!
بعد جس کے سلامتی نہ ملی
کیسا طرزِ سلام تھا تیرا!
تا کہ تیری نظر میں آ جاؤں
پی لیا میں نے جام تھا تیرا
ہندوؤں کو صنم، مرے دل میں
اِس قدر احترام تھا تیرا
مٹ گئیں وہ لکیریں ہاتھوں سے
جن لکیروں میں نام تھا تیرا
وہ زمانہ ہے یاد تم کو ثباؔت؟
میرے دل میں قیام تھا تیرا