جتنا سوچے برا ، بھلا میرا
وہ بگاڑے گا اب بھی کیا میرا
مجھ کو غیروں نے بڑھ کے تھام لیا
جب وہ دشمن تھا آشنا میرا
بھیک مانگی ہے اب دعاؤں کی
دردِ دل جب ہے لا دوا میرا
اب تو کر دو نا رنجشوں میں کمی
مجھ کو بخشو سنا ، کہا میرا
ایک تازہ گلاب ہوں بن میں
خوش بیانی ہے مشغلہ میرا
تھام ہاتھوں میں یاد کی تختی
نام لکھ لکھ کے اب مٹا میرا
اس کو فکرِ وفا نہ تھی وشمہ
کیسے کرتا وہ حق ادا میرا