ہر بار جب تم میرا فون نمبر ملاتی ہو
پھر کیا سوچ کر خاموش ہوجاتی ہو
اس طرح مجھے کیوں تڑپاتی ہو
اپنی روح کو بھی اذیت پہنچاتی ہو
میرےضبط کو کیوں آزماتی ہو
اپنےآپ کو کیوں ستاتی ہو
اب وقت کا تقاضہ ہے کہ اک دوجے کو بھول جائیں
وصل کا خیال بھی اب ذہن میں نہ لائیں
ان پیار بھری یادوں کے سہارے جی لیں
ہنس کر جدائی کا زہر پی لیں