جذب حسرتیں لبوں پہ کبھی تشنگی بھی آتی
اپنی جوش خواہشوں میں کوئی خفگی بھی آتی
کناروں کی تفریح سے کوئی تعمل سے گذر گیا
ملائم رنج زباں پہ کوئی تلخی بھی آتی
زخموں کے پیوند آج بھی گہرے ہیں مگر
خون میں بالخصوص کوئی سرخی بھی آتی
ہاں بھلادی انہوں نے ہر رمز کی تاریکیاں
کبھی یاد کرتے تو ہمیں ہچکی بھی آتی
کئی دنوں سے کچھ یوں مناسب نہیں لگتا
اِسی حال محرم میں کوئی عمدگی بھی آتی
خیالوں کی حد میں کتنی آوارگیاں پھیل گئی
کبھی قریب سے دیکھنے وہ زندگی بھی آتی