جذبات کی لہروں میں کنارہ نہ ملے گا
ہر سو بھنور ہیں، سہارا نہ ملے گا
اِن حسرتوں کو دل میں نہ یوں بسا کے رکھنا
ٹوٹا محل کانچ کا تو پارہ پارہ نہ ملے گا
منڈلاتے رہے ابرِ خواہشاں آسمانِ دل
چاند کی اُمید کہاں؟ تارا نہ ملے گا
بیچ دلدل نہ بلاؤ چارہ جوئی کے لئے
چارہ گر نہ رہے گا، چارہ نہ ملے گا
عشق میں گوشہءِ تنہائی ضروری تو نہیں
ترکِ دنیا وصالِ یار، عشق سارا نہ ملے گا
اصول پسند اعتدال میں رہنے والوں میں
شاید وادیءِ دنیا میں کوئی شخص ہارا نہ ملے گا
چھوٹ پائے نہ وقت کی گاڑی خیال رہے قیصرؔ
گزرا اِک لمحہ تا ابد دوبارہ نہ ملے گا