جس رت میں ہم ملے تھے اب پھر وہی سماں ہے
صدیاں گزر گئی ہیں اب لوٹ آ جہاں ہے
آ دیکھ اب تو جاناں میرے دل کی بیقراری
یہ مجھ سے پوچھتا ہے تیرا جان جاں کہاں ہے
آنکھیں ترس رہی ہیں تیری دید کو اے ہمدم
اک جھلک ہی دکھانے اب آ بھی جا جہاں ہے
نہ ہے قرار دل کو نہ جینے کا مزہ ہے
بن تیرے اے ستمگر یہ زندگی خزاں ہے
تجھ سےبچھڑ کے زریں خود سے بھی بےخبر ہے
ہر اک سے پوچھتا ہے منزل میری کہاں ہے