جس قافلے کا مجھ کو مان تھا کہیں راستوں میں بچھڑ گیا
مرے دل کے رستے ویران رھے وہ کسی اور راہ سے گزر گیا
میں رات سے رات مجھ سے لپٹ کر سسک پڑی
کہیں چاند بادلوں میں چھپ گیا کوئ ستارا ٹوٹ کر بکھر گیا
دل کا موسم تھا جب وہ نھیں تو یہ موسم کس کام کا
مری شاخ شاخ اجڑ گئ مرا پھول پھول بکھر گیا
کل اک جگنو آیا مرا غمگسار بن کر مجھ سے کہنے لگا
میں ڈھونڈ لاوٰں گا بتا تو سھی وہ پنچھی کدھر گیا
اے دیدہٰ تمناٰ یار بس کر تیرا جاگنا کس کام کا
رات بھت ھو گئ شائد وہ کہیں ٹہر گیا
پکارا اس نے نہیں تو صدا دینا میری بھی فطرت نہیں
میں اپنی انا کی جنگ جیت گئ وہ بھی انا کے خمار میں گزر گیا