دھوپ تھی ، چھاؤں تھی
زندگی تو بس اک ناؤں تھی
سمندر تو جہاں بن گیا تھا
پر جہاں سے بچ گئی تھی کشتی
وہاں پر ہی تو ساری گہرائی تھی
میں تو چل رہی تھی کناروں کناروں
پھر نجانے کس نے مجھے آواز لگائی تھی
میں بھی شاید ! تنہایوں سے تھک گئی تھی
تبی تو میں نے کم پانی میں بھی
اپنی کشتی ڈوبوائی تھی
پر وہ کون سی تھی دنیا
جہاں ڈوب کر بھی میں نے
اک زندگی پائی تھی
وہ ُالجھے ُالجھے راستے
جہاں میں نے بڑے پیار سے
ُاس کے لیے محفلیں سجائی تھی
وہ کون تھا شخص ؟
جس سے دور رہ کر بھی میں نے
خود میں ُاس کی جھلک پائی تھی
وہ تو تھا شہزادہ میری دنیا کا
جس کے آگیے
میں نے اپنی ہستی مٹائی تھی
شاید ! میں تو تھی برسوں سے
صرف ُاسی کی تلاش میں
جس نے اک پل میں میری قیمت چکائی تھی
نا تو کیا کوئی وعدہ ُاس نے
اور نا ہی کوئی پابندی عائد کی مجھ پر
پھر بھی نجانے کیوں میں نے
خود کو مجرم بنا کر
ُاس کے پیار کی ہتھکڑی خود کو پہنائی تھی
پھر نجانے ہوا کیا ؟
کہ پل میں لہجے بدل گیے
کہ پھر بہاروں میں بھی ُاس نے
مجھے خزاں ہی دیکھائی تھی
پر پھر بھی میں ُاس کے ساتھ خوش تھی
نجانے خدا نے ُاس کی صورت کیسی بنائی تھی
شاید ! وہ تھک گیا تھا مجھ سے
تبی تو ُاس نے الزاموں کی مالا
بڑے پیار سے مجھے پہنائی تھی
میں کیسے نہ سر جھکاتی
میں نے ُاس کی آنکھوں میں
کچھ عجیب سی کشکش پائی تھی
تبی تو میں نے خوشی سے
انی گردن ُاس کے آگیے جھکائی تھی
بات کرتے کرتے وہ کہہ گیا یوں تو الوداع
پر بے خبر نے دیکھا ہی نہیں
میری آنکھوں میں کہ
میں نے کب اپنی آنکھوں سے
ُاس کے انتظار کی لکیر مٹائی تھی