جس نے دیکھے مری دولت کے اجالے دیکھے
کب کسی نے ہیں مرے پاؤں کے چھالے دیکھے
میری خوشیوں میں سبھی اے تھے ہونے کو شریک
ہے کوئی؟ ائے جو اب درد کے نالے دیکھے
آج بے رنگ سا پھرتا ہے زمانے میں وہی
رنگ جس نے تھے محبت کے نرالے دیکھے
اُس نے پھر موت کی آنکھوں سے ملا لیں آنکھیں
بھوک میں جس نے بھی سانسوں کے نوالے دیکھے
آج دولت ہے تو آتے ہیں سلامی دینے
وقت گردش میں انہیں ہونٹوں پہ تالے دیکھے
آج سورج نے کیا وار تو میں نے وشمہ
اپنے پاؤں میں یہاں برف کے گالے دیکھے