جس نے صدائیں بانٹی در و دیوار سائل کی طرح
میں نے آج بھی اُسے دیکھا ایک گھایل کی طرح
جب کبھی بے جا خیال سے فرقت چاہی تھی
وہ پھر لپٹ گیا دامن پہ آنچل کی طرح
یہ امید نہیں کہ مدت لوٹے گی پھر بھی
بج اٹھتی ہیں دھڑکنیں یوں پایل کی طرح
مجھے کس نے سنا اور یوں کس نے راہ موڑی
زمانے کی زبانیں چلتی رہی قایل کی طرح
بارشوں میں بھی بدن ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
نہ سمجھو عشق کو بس تساہل کی طرح
لہروں میں لہراتے اور اپنا دل بہلاتے
کوئی تو بحر ڈھونڈتا تھا ساحل کی طرح