جس کا حامی ہو خدا کیوں نہ وہ غلبہ پائے گا
جو ہوائیں ہوں مخالف تو وہ نہ گھبرائے گا
برق گر تی ہے کبھی تو آشیاں مٹتا بھی ہے
جو ارادے ہی ہوں پختہ تو وہ سنبھل جائے گا
آگ کو کرکے گلستاں یہ جہاں کو دکھلایا
اس کرشمے سے یقیں محکم ہی تو بن جائے گا
کوئی اندازِ بیاں ایسا کہ جو من کو بھائے
جو خلوصِ شوق نہ ہو تو وہ بھی پچھتائے گا
بھنور میں کشتی کبھی پھنس بھی جائےتو کیا ہے غم
جو یقیں پختہ ہو تو ساحل بھی تو مل جائے گا
وہ کسی کے جھانسے میں کیوں اثر ہیں آنے والے
جو ہیں مخلص تو اُنہیں کیسے کوئی للچائےگا