جس کو میرا حبیب رہنا تھا
کیا خبر تھی رقیب رہنا تھا
اپنی جاں سے گزر بھی جاتے ہم
پھر بھی رشتہ عجیب رہنا تھا
ہم محبت میں بھول جاتے ہیں
کس کے کتنا قریب رہنا تھا
دوستوں سے گلہ نہیں کچھ بھی
ہم کو جگ میں غریب رہنا تھا
اُس کی یادوں کی روشنی کے بغیر
دل کا رستہ مہیب رہنا تھا
ہم دسمبر کو بھولتے نہ اگر
سالِ نو کے قریب رہنا تھا
زخم نوچے ہیں اس نےآنکھوں کے
وشمہ جس نے طبیب رہنا تھا