جس کی یادوں کا دل پہ پہرہ ہے
ایک معصوم سا وہ چہرہ ہے
اسکی آنکھوں میں ڈوب کر دیکھا
یہ سمندر بہت ہی گہرہ ہے ہے
جاں کی بازی لگائی تھی میں نے
جیت کا کس کے سر پہ سہرہ ہے
شہر اندھوں کا لوگ گونگے ہیں
اور منصف یہاں پہ بہرہ ہے
ہوگئی کیوں فضا معطّر سی
کون محفل میں آکے ٹہرہ ہے
انکے قدموں کی برکتیں انور
آج پر نور ذرّہ ذرّہ ہے