جس کے اک تصور میں تھم نہ آیا

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

جس کے اک تصور میں تھم نہ آیا
وہ تکلیف دیکر میرے وہم نہ آیا

میرے التماس ادھورے رہہ گئے مگر
کبھی حقیر نگاہوں کو رحم نہ آیا

ایک قفس کی مویشی اور کیا کرتی
جب تک عدم امکاں کو فہم نہ آیا

یوں تو ضد کا اسرار یکساں رہتا آیا
گراں بار فہمائش میں وہ اہم نہ آیا

جہاں بے رخیاں ہیں شدت سے
وہاں بھی اس عاشقی کو اسم نہ آیا

اِس نام کے ساتھ خطاب جوڑتے گئے
لیکن میرا مجھ سے کوئی بہم نہ آیا

 

Rate it:
Views: 336
08 Jan, 2011