عشق کی آگ کچھ ایسی ہوتی ہے
جو کسی بھی پانی سے بجھتی ہی نہیں
دیدار یار ہو جائے تو دل مطمن
ورنہ آنکھوں میں نیند روکتی ہی نہیں
آنسوؤں کا سیلاب سا جاری رہتا ہے
بدلی کی ماند جو برستے تھکتی ہی نہیں
ہر کس کا اپنا اپنا اندازعشق دوستوں
پر کہانی کسی کی بھی بدلتی ہی نہیں
اور کیا بتاؤں کیا ہے یہ عشق
ایسی داستاں جو لفظوں میں سمٹی ہی نہیں
عشق تو اک ایسا سمندر ہے روشنی
جسکی گمنام لہریں بھی طوفان سے کم ہوتی نہیں